بنگلہ دیش نے منگل کو احتجاج کے دوران پرتشدد جھڑپوں میں چھ طلباء کی ہلاکت کے بعد ملک بھر کے اسکولوں اور یونیورسٹیوں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کرنے کا حکم دیا ہے
جب کہ نظم و نسق برقرار رکھنے کے لیے نیم فوجی دستوں کو لایا گیا ہے۔
بنگلہ دیش میں پولیس نے کہا ہے کہ سرکاری ملازمتوں کے کوٹے پر ہونے والے احتجاج کے درمیان حریف طلباء گروپوں میں پرتشدد جھڑپوں میں کم از کم چھے مظاہرین ہلاک ہو گئے۔ اس سے ایک روز پہلے 400 سے زیادہ افرادزخمی ہونے تھے۔
یونیورسٹی کے طلباء کی حکمران عوامی لیگ کی حمایت کرنے والے احتجاج مخالف مظاہرین کے ساتھ لاٹھیوں اور پتھروں سے لڑائی کے درمیان پولیس نے آنسو گیس استعمال کی اور اور ربڑ کی گولیاں چلائیں۔
چٹاگانگ میڈیکل کالج اسپتال کے ڈائریکٹر محمد تسلیم الدین نے اے ایف پی کو بتایا، “تینوں کو گولیوں کے زخم آئے تھے۔” انہوں نے یہ بھی بتایا کی “تقریباً 35 افراد زخمی ہوئے۔”
اسٹوڈنٹس کےحریف گروپوں نے دارالحکومت ڈھاکہ کے آس پاس کئی اہم مقامات پر مارچ کیا، کچھ نے ایک دوسرے پر بتھراؤ کیا، 2 کروڑ کی آبادی والے شہر میں ٹریفک تقریباً جام ہو کر رہ گیا۔
انسپکٹر بچو میا نے بتایا کہ ڈھاکہ کالج کے باہر ایک طالب علم کو ہلاک کر دیا گیا اور کم از کم 60 افراد زخمی ہوئے۔
شمالی شہر رنگ پور میں پولیس کمشنر محمد منیر الزمان نے اے ایف پی کو جھڑپوں میں ایک طالب علم کی ہلاکت کی اطلاع دی۔
اس ماہ تقریبأ روزانہ ہونے والے مظاہروں میں کوٹہ سسٹم کے خاتمے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جس میں سول سروس کی نصف سے زیادہ پوسٹیں مخصوص گروپوں کے لیے ریزروڈ ہیں، جن میں پاکستان کے خلاف 1971 کی جنگ آزادی کے ہیروز کے بچے بھی شامل ہیں۔