امریکہ کے صدارتی الیکشن سروے کے مطابق کمالا ہیرس کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔
این پی آر، پی بی ایس اور ماریسٹ کے مشترکا سروے کے مطابق ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار کو اس وقت 51 فیصد جبکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو 48 فیصد مقبولیت حاصل ہے۔
جو بائیڈن کے دوڑ سے دستبردار ہونے کے بعد کمالا ہیرس نے جب بطور ڈیموکریٹ امیدوار ان کی جگہ لی تھی تو اس وقت کملا ہیرس کی مقبولیت موجودہ 51 فیصد سے 4 پوائنٹس نیچے تھی۔
سروے کے مطابق اگر تھرڈ پارٹی کی چوائس ہو تب بھی کمالا ہیرس کی مقبولیت 48 فیصد اور ٹرمپ کی مقبولیت 45 فیصد ہے۔ اس طرح کمالا ہیرس اس صورت میں بھی 3 پوائنٹس کی برتری رکھتی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کمالا ہیرس سیاہ فام ووٹرز، کالج ڈگری کی حامل سفید فام خواتین اورخود کو انڈیپنڈینٹ قرار دینے والی خواتین میں کہیں زیادہ مقبول ہیں اور یہ مقبولیت مزید بڑھ رہی ہے۔
معیشت کے معاملے میں ٹرمپ کی مقبولیت 3 پوائنٹس زیادہ ہے مگر کملا ہیرس کی پوزیشن جو بائیڈن کی پوزیشن سے کہیں بہتر ہے۔
سروے کے مطابق ٹرمپ کو امیگریشن کے معاملے میں 6 پوائنٹس کی برتری حاصل ہے مگر یہاں بھی بائیڈن کے مقابلے میں کمالا کی پوزیشن 15 پوائنٹس بہتر ہے۔ خواتین ووٹرز میں کملاکی پوزیشن ٹرمپ سے13 پوائنٹس زیادہ ہے تاہم مرد ووٹرز میں ان کی پوزیشن 9 پوائنٹس کم ہے۔
سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ سیاہ فام ووٹرز میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں کمالا کی مقبولیت 23 پوائنٹس سے بڑھ کر 54 پوائنٹس پر جا پہنچی ہے۔ انڈیپنڈینٹس ووٹرز میں بھی کمالا ہیرس کی پوزیشن ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں 9 پوائنٹس زیادہ ہوگئی ہے۔
تاہم سب سے اہم یہ کہ کملا ہیرس کی مقبولیت 40 فیصد سے بڑھ کر 46 فیصد تک جاپہنچی ہے،یہ جو بائیڈن ہی نہیں براک اوباما کو حاصل مقبولیت سے بھی زیادہ ہے۔
1976 میں جمی کارٹر کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ ڈیموکریٹس اس مقام پر ہیں۔
سروے کرنے والوں کے مطابق اس میں غلطی کی گنجائش 3.3 پوائنٹس ہے۔
یہ سروے جمعرات سے اتوار کے دوران کیا گیا تھا اس لیے واضح نہیں کہ ٹم والز کو نائب صدارتی امیدوار بنانے کے بعد کمالا ہیرس کی پوزیشن میں کس قدر فرق آیا ہے۔