شارٹ ویڈیو شیئرنگ ایپلی کیشن ٹک ٹاک پر امریکہ میں ممکنہ پابندی کے خلاف ٹک ٹاک اور امریکی حکومت کے درمیان عدالتی جنگ کا آغاز ہوگیا ہے۔
ٹک ٹاک اور امریکی حکومت کے درمیان قانونی جنگ کی پہلی سماعت 16 ستمبر کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی کے ضلع کولمبیا کی ٹرائل کورٹ میں ہوا۔
کیس کی پہلی سماعت دو گھنٹے تک جاری رہی، جس میں ٹک ٹاک کے وکیل سمیت امریکی حکومت کے وکیل نے بھی دلائل دیے۔
ٹک ٹاک کے وکیل Andrew Pincus نے عدالت کو بتایا کہ ٹک ٹاک امریکی قومی سلامتی کے لیے کسی طرح بھی خطرہ نہیں بلکہ اس پر پابندی امریکہ کے 17 کروڑ عوام کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے، ایپ کے امریکہ میں 17 کروڑ صارفین ہے اور معلومات تک رسائی ان کا حق ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ٹک ٹاک نے امریکی حکومت کو متعدد بار پیش کش بھی کی لیکن ہر بار حکومت ان کی پیش کش کو مسترد کردیتی ہے۔
اسی طرح امریکی حکومت کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ٹک ٹاک کا الگورتھم کا کوڈ 2 ارب لائنوں پر مشتمل ہے جو پورے ونڈوز آپریٹنگ سسٹم سے 40 گنا بڑا ہے اور اسے روزانہ ایک ہزار بار بدلا جاتا ہے۔
امریکی حکومت کے وکیل نے کا کہنا تھا کہ اس لیے ہمیں شک ہے کہ اس کے ذریعے جاسوسی کی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہم اس میں ہونے والی تبدیلیوں پر نظر رکھنا چاہتے ہیں۔
دونوں فریقین کی خواہش ہے کہ عدالت دسمبر 2024 تک اپنا حتمی فیصلہ سنائے۔
امریکی قانون کے تحت ٹک ٹاک 19 جنوری 2025 تک خود کو کسی امریکی کمپنی یا شخص کو فروخت کرنے کی پابند ہے، دوسری صورت میں اس پر امریکہ میں پابندی عائد کردی جائے گی۔
امریکہ میں ٹک ٹاک پر پابندی کے خلاف امریکا کے ایوان نمائندگان یعنی کانگریس نے 20 اپریل جب کہ سینیٹ نے 24 اپریل کو بل منظور کیا تھا۔
دونوں ایوانوں سے بل کے منظور ہونے کے بعد امریکی صدر جوبائیڈن نے 25 اپریل کو بل پر دستخط کیے تھے، جس کے بعد وہ قانون بن گیا تھا۔
قانون کے تحت امریکی صدر چاہیں تو ٹک ٹاک کو فروخت کرنے کی مدت میں 9 ماہ کے بعد مزید تین ماہ کا اضافہ کر سکتے ہیں۔
اس سے قبل ڈٖونلڈ ٹرمپ نے بھی ٹک ٹاک پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت بھی عدالتوں نے پابندی کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔