امریکی نیوز ویب سائٹ ایگزیوس نے دعوی کیا ہے کہ غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کے لیے امریکی حکومت نے فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس سے براہ راست رابطہ کیا ہے۔
ایگزیوس نے ان رابطوں کے حوالے سے معلومات رکھنے والے دو ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حکومت اور حماس کے درمیان بات چیت غزہ میں موجود امریکی یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کے ایک وسیع تر معاہدے کے حوالے سے ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق مذاکرات میں بنیادی طور پر حماس کی جانب سے یرغمال بنائے گئے امریکی شہریوں کی رہائی پر بات چیت کی گئی، تاہم اس میں تمام یرغمالیوں کی رہائی اور طویل المدتی جنگ بندی کے امکانات پر بھی گفتگو ہوئی البتہ کوئی حتمی معاہدہ طے نہیں پایا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے یہ مذاکرات امریکی صدر کے خصوصی ایلچی ایڈم بوہلر کی قیادت میں گزشتہ ہفتوں کے دوران دوحہ میں ہوئے۔
رپورٹ کے مطابق یہ رابطہ اس حوالے سے غیرمعمولی ہے کہ امریکہ نے اس سے پہلے حماس سے کبھی براہ راست رابطہ نہیں کیا۔
ذرائع کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے حماس سے براہ راست بات چیت کے حوالے سے اسرائیل سے مشاورت کی تھی تاہم اسرائیل کو مذاکرات کی تفصیلات دیگر ذرائع سے معلوم ہوئیں۔
اسرائیلی فوج کے مطابق حماس کے قبضے میں اب بھی 59 یرغمالی موجود ہیں، جن میں سے 35 کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے جبکہ 22 کے زندہ ہونے کا امکان ہے، یرغمالیوں میں 5 امریکی شہری بھی شامل ہیں۔
ادھر غزہ میں جنگ بندی کا 42 روزہ پہلا مرحلہ گزشتہ ہفتے ختم ہو چکا ہے اور فریقین اس میں توسیع پر متفق نہیں ہو سکے۔
جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں توسیع نہ ہونے پر اسرائیل نے غزہ میں داخل ہونے والی تمام انسانی امداد روک دی ہے جس سے غزہ میں قحط کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔