پاکستان کے شورش زدہ صوبے بلوچستان میں ایک مسافر ٹرین پر علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے حملے کرکے 450 کے قریب مسافروں کو یرغمال بنالیا ہے۔
ڈپٹی کنٹرولر ریلوے کوئٹہ محمد شریف نے بتایا ہے کہ جعفر ایکسپریس کوئٹہ سے پشاور جا رہی تھی کہ ڈھاڈر مشکاف اسٹیشن کے قریب ٹرین پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا۔
ان کے بقول یہ علاقہ سبی ریلوے اسٹیشن سے تقریباً 30 کلومیٹر دور ہے۔
ڈپٹی کنٹرولر کا کہنا ہے کہ فائرنگ سے ٹرین ڈرائیور کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ تاہم اُس علاقے میں موبائل سگنل نہ ہونے اور وائرلیس سیٹ کام نہ کرنے کی وجہ سے ٹرین کے عملے سے رابطہ نہیں ہو پا رہا۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹرین میں 450 کے قریب مسافر سوار تھے جن کے ہمراہ سیکیورٹی اسکواڈ بھی موجود تھا۔
کوئٹہ میں ریلوے کے ایک سینئر عہدے دار محمد کاشف نے بتایا کہ “مسلح افراد نے 450 سے زیادہ مسافروں کو یرغمال بنایا ہوا ہے۔ مسافروں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔”
دوسری جانب کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے جعفر ایکسپریس پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ٹرین پر قبضہ کرنے اور مسافروں کو یرغمال بنانے کا دعویٰ کیا ہے۔
بی ایل اے نے ایک بیان میں حملے میں فوج کے متعدد اہلکاروں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ تاہم پاکستانی فوج کی جانب سے اس حوالے سے ابھی تک کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا ہے۔
بی ایل اے نے اپنے بیان میں کہا کہ ریلوے ٹریک کو دھماکے سے تباہ کرنے کے بعد ٹرین پر قبضہ کیا گیا۔
بی ایل اے نے خبردار کیا کہ یرغمالوں کی بازیابی کے لیے کسی بھی آپریشن کے سنگین نتائج ہوں گے۔
ٹرین پر حملے کا واقعہ مقامی وقت کے مطابق دن ایک بجے کے قریب ضلع سبی کے اسٹیشن کے قریب پیش آیا۔ ٹرین صبح نو بجے کے قریب کوئٹہ سے پشاور کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
حکام کا کہنا ہے کہ سبی کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔
سبی کے ایک سینئر پولیس افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ٹرین پہاڑوں میں ایک سرنگ کے سامنے رکی ہوئی ہے۔
بلوچستان میں رواں سال میں کالعدم بلوچ علیحدگی پسند تنظیموں کی جانب سے سیکیورٹی فورسز اور سرکاری تنصیبات پر حملوں میں شدت آئی ہے
فروری میں بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے منگوچر میں جھڑپ کے دوران 18 سیکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے تھے۔
اس کے علاوہ بی ایل اے نے فروری میں ایک مسافر بس سے پنجاب سے تعلق رکھنے والے سات مسافروں کو اتار کر قتل کرنے ذمہ داری قبول کی تھی۔
اس سے قبل گزشتہ برس منظم حملوں کے نتیجے میں کم از کم 39 افراد ہلاک ہوئے تھے جس میں زیادہ تر پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد تھے۔
گزشتہ سال نومبر میں بی ایل اے نے کوئٹہ ریلوے اسٹیشن پر دھماکے کی ذمہ داری قبول کی تھی جس میں 14 اہلکاروں سمیت 26 افراد ہلاک ہوئے تھے۔