امریکہ کی سپریم کورٹ نے ایک حیران کن اقدام کے طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تارکین وطن کو ایک غیر واضح قانون کے تحت بے دخل کرنے کی پالیسی پر پابندی عائد کر دی ہے۔
عدالت نے کہا کہ ’حکومت کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اگلے حکم تک نظربند افراد میں سے کسی بھی شخص کو نہ ملک بدر نہ کرے۔‘
امریکی سپریم کورٹ نے وینزویلا کے تارکین وطن کو طے شدہ ضوابط کے بغیر ملک سے نکالنے پر روک لگانے کا حکم دیا۔
اس معاملے کی سپریم کورٹ کے 9 رکنی پینل نے سماعت کی اور دو ججز نے اس ہنگامی حکم نامے سے اختلاف کیا۔
یہ حکم عارضی طور پر حکومت کو 1798 کے ایلین اینیمیز ایکٹ کے تحت تارکین وطن کو بے دخل کرنے سے روکتا ہے۔
اس ایکٹ کو آخری مرتبہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی امریکی شہریوں کو پکڑنے کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ماہ وینزویلا کے باشندوں کو ایل سلواڈور کی ایک بدنام زمانہ جیل میں بھیجنے کے لیے قانون کا مطالبہ کیا تھا جس میں اس ملک کے ہزاروں گینگسٹرز کو رکھا گیا تھا۔
جمعے کو مذکورہ ایکٹ کے تحت وینزویلا کے مزید درجنوں افراد کو ملک بدر کرنے کا منصوبہ اس ہنگامی عدالتی فیصلے کی وجہ بنا ہے۔
اس اقدام کا مطلب یہ تھا کہ وہ افراد اپنے خلاف ثبوت سننے یا اپنے مقدمات کو چیلنج کرنے کے موقعے کے بغیر ملک بدر کر دیے جاتے۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے ان فوری بے دخلیوں کا جواز پیش کیا اور اس بات پر اصرار کیا کہ وہ وینزویلا کے پرتشدد جرائم پیشہ گروہوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں جنہیں اب امریکی حکومت نے دہشت گردوں کی درجہ بندی میں شامل کیا ہے۔
حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں دلیل دی گئی کہ اسے دہشت گرد قرار دیے گئے افراد کو ملک بدر کرنے کے لیے ایلین اینیمیز ایکٹ کا استعمال کرنے سے نہیں روکا جانا چاہیے۔
حکومت نے یہ بھی زور دے کر کہا کہ اگر اسے روک دیا جائے تو عدالت کو بتانا چاہیے کہ اس طرح کی ملک بدریاں دوسرے قوانین کا استعمال کرتے ہوئے کی جا سکتی ہیں۔