بدھ کی شب بلوچ یکجہتی مارچ مارچ بلوچستان کے شہر تربت سے 26 دن کا سفر طے کر کے اسلام آباد پہنچا تو پولیس نے شرکا پر لاٹھی چارج، واٹر کینن اور آنسو گیس کی شیلنگ کے ذریعے منتشر کرنے کی کوشش کی۔
اسلام آباد پولیس نے اس دوران خواتین سمیت متعدد افراد کو گرفتار کیا۔
پولیس نے 218 افراد کی گرفتاری کی تصدیق کی ہے۔
Am ashamed that I have to ask @amnesty to look into the matter of my own homeland where peaceful protestors of #MarchAgainstBalochGenocide is facing use of force by the Islamabad Police. pic.twitter.com/wZAbcUAhNm
— Tariq Mateen (@tariqmateen) December 20, 2023
پولیس نے اسلام آباد کے داخلی راستے ترنول سے گرفتار افراد کو جمعرات کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کر کے ریمانڈ کی استدعا کی جسے مسترد کر دیا گیا اور 33 افراد کو پانچ،پانچ ہزار کے مچلکوں پر رہا کرنے کا حکم دے دیا۔
یاد رہے کہ بلوچستان کے علاقے تربت میں سی ٹی ڈی کے ساتھ مبینہ مقابلے میں چار افراد کی ہلاکت پر لواحقین سراپا احتجاج ہیں۔ لواحقین کا دعویٰ ہے کہ مارے جانے والے افراد کو جبری طور پر لاپتا کیا گیا تھا۔
All Long March participants are arrested by Islamabad police.#MarchAgainstBalochGenocide pic.twitter.com/KA92DsvvoL
— Baloch Yakjehti Committee (Islamabad) (@BYCislamabad) December 20, 2023
نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اس معاملے پر تین حکومتی وزرا پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جس میں وزیرِ اطلاعات مرتضیٰ سولنگی، وزیرِ نجکاری فواد حسن فواد اور وزیرِ ثقافت جمال شاہ شامل ہیں۔
جمعرات کی شام پریس کانفرنس کرتے ہوئے کمیٹی کے اراکین نے دعویٰ کیا کہ تمام گرفتار مظاہرین کو شناخت کے بعد رہا کر دیا گیا ہے اور صرف وہ افراد زیرِ حراست ہیں جن کی ابھی شناخت نہیں ہو سکی۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا سختی کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن خفیہ معلومات تھیں کہ مرکزی شاہراہ پر زیادہ دیر احتجاج سے ناخوش گوار واقعہ پیش آ سکتا ہے۔