انسانی حقوق کی تنظیموں نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران نے گذشتہ سال تقریباً 975 افراد کو پھانسی دی جو سزائے موت میں ’خوفناک اضافہ‘ ہے۔
ناروے میں قائم تنظیم ایران ہیومن رائٹس اور فرانس میں قائم ٹوگیدر اگینسٹ دی ڈیتھ پینلٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ 2023 کے مقابلے میں پھانسیوں کی تعداد میں 17 فیصد اضافہ ہوا جو ایک دہائی میں سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق ان میں کم از کم 31 خواتین اور ایک بچہ بھی شامل تھا، جنہیں قتل، زیادتی اور زیادہ تر منشیات سے متعلق الزامات میں پھانسی دی گئی۔
موت کی سزا پانے والوں میں مظاہرین، کرد علیحدگی پسند، اور غیر ملکی شہری بھی شامل تھے جن میں 80 افغان شہری تھے۔
رپورٹ کے مطابق 2024 میں کم از کم 975 افراد کو پھانسی دی گئی جبکہ گزشتہ برس 2023 میں 834 افراد کو پھانسی دی گئی تھی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے صرف 95 سزاؤں (یعنی 10 فیصد سے بھی کم) کا سرکاری طور پر اعلان کیا گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پھانسی پانے والوں میں کم از کم ایک بچہ شامل تھا جب کہ تین دیگر بچوں کی ممکنہ کیسز میں تحقیقات جاری ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ اعداد و شمار 2024 میں ایران کی جانب سے سزائے موت کے استعمال میں خوفناک اضافے کو ظاہر کرتے ہیں، جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے تہران پر الزام عائد کیا کہ وہ سزائے موت کو سیاسی جبر کے بنیادی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔
؎