اقوام متحدہ کی ایک تحقیقات ٹیم اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں جنسی اور تولیدی صحت کی سہولتوں کو منظم طریقے سے تباہ کرکے ’نسل کشی‘ کی کارروائیاں کیں۔
اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن نے کہا ہے کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر فلسطینی علاقے کے مرکزی تولیدی سینٹر پر حملہ کرکے اسے تباہ کر دیا اور ساتھ ہی اس کا محاصرہ کرکے محفوظ حمل، زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی دیکھ بھال کو یقینی بنانے کے لیے درکار ادویات سمیت امداد کو روک دیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ البسما پر دسمبر 2023 میں گولہ باری کی گئی تھی جس کے نتیجے میں مبینہ طور پر ایک کلینک میں تقریبا 4 ہزار ایمبریو تباہ ہو گئے تھے جو ماہانہ 2 ہزار سے 3 ہزار مریضوں کو خدمات فراہم کرتے تھے۔
انکوائری میں کہا گیا کہ اس کنونشن کی 5 میں سے 2 اقسام قرار دیتی ہیں کہ ’اسرائیل جان بوجھ کر مادی تباہی کے لیے گروہ کے حالات زندگی کو نقصان پہنچا رہا تھا اور گروہ کے اندر بچوں کی پیدائش روکنے کے لیے اقدامات مسلط کر رہا تھا‘۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں حاملہ، دودھ پلانے والی اور نئی ماؤں کو وسیع پیمانے پر نقصان پہنچا ہے جس کا غزہ کے باشندوں کے تولیدی امکانات پر ناقابل تلافی اثر پڑا ہے۔
کمیشن کی سربراہ نوی پلے نے ایک بیان میں کہا کہ ’ان خلاف ورزیوں کی وجہ سے نہ صرف خواتین اور لڑکیوں کو فوری طور پر شدید جسمانی اور ذہنی نقصان پہنچا ہے بلکہ ایک گروہ کے طور پر فلسطینیوں کی ذہنی صحت اور تولیدی و زرخیزی امکانات پر ناقابل تلافی طویل مدتی اثرات مرتب ہوئے ہیں‘۔
اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے مئی 2021 میں اسرائیل اور فلسطینی علاقوں میں بین الاقوامی قوانین کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے 3 رکنی آزاد بین الاقوامی انکوائری کمیشن قائم کیا تھا۔
جنیوا میں اسرائیلی مشن نے ایک بیان میں کہا کہ ’اسرائیل بے بنیاد الزامات کو واضح طور پر مسترد کرتا ہے‘۔
اسرائیل نے کمیشن پر الزام عائد کیا ہے کہ ’وہ اسرائیل کی دفاعی افواج کو بدنام کرنے کی شرمناک کوشش میں پہلے سے طے شدہ اور متعصبانہ سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھا رہا ہے‘۔