آسٹریلیا نے افغان جنگ کے دوران جنگی جرائم اور غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث اپنے فوجی کمانڈروں سے تمغے واپس لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
آسٹریلیا نے اپنے ان فوجی کمانڈروں سے اعزازی تمغے واپس لینے کا اعلان کیا ہے، جن کے لڑاکا یونٹ افغانستان میں تعیناتی کے دوران مبینہ طور پر جنگی جرائم کے مرتکب ہوئے۔
آسٹریلوی وزیر دفاع رچرڈ مارلس نے کہا کہ آسٹریلیا ایک ایسا ملک ہے جو خود کو جوابدہ سمجھتا ہے۔
وزیر دفاع رچرڈ مارلس نے پارلیمنٹ کو بتایابریریٹن رپورٹ کا موضوع بننے والے الزامات آسٹریلیا کے جنگی جرائم کے سب سے سنگین الزامات ہیں۔
2005 سے 2016 تک کے گیارہ سالوں میں افغانستان میں آسڑیلوی فوجیوں کی تعیناتی کے بارے میں کی گئی ایک سرکاری انکوائری کی رپورٹ میں آسٹریلیا کی ایلیٹ اسپیشل فورسز کے ہاتھوں 39 افغان شہریوں اور قیدیوں کے مبینہ غیر قانونی قتل کے ثبوت فراہم کیے گئے ہیں۔
میجر جنرل پال بریٹن کی سربراہی میں کی گئی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ آسٹریلوی اسپیشل ایئر سروس رجمنٹ اور کمانڈو رجمنٹ کے 25 فوجی افغانوں کے غیر قانونی قتل میں ملوث تھے۔
وزیر دفاع مارلس نے کہا کہ اس تحقیقاتی رپورٹ میں پیش کی گئی 143 سفارشات میں سے 139 کو اپنایا لیا گیا ہے۔ جن سفارشات پر عمل کیا جائے گا، ان میں فوجیوں کو دیے گئے تمغوں پر نظر ثانی، متاثرین کے لواحقین کے لیے معاوضہ اسکیم اور فوجی کلچر میں اصلاحات شامل ہیں۔ باقی چار سفارشات کو اپنانے سے متعلق ابھی فیصلہ کیا جانا باقی ہے۔
بریریٹن رپورٹ میں 19 افراد کو آسٹریلوی فیڈرل پولیس کے حوالے کرنے کی تجویز بھی دی گئی، لیکن یہ ایک مشکل عمل ثابت ہوا ہے۔
یاد رہے کہ امریکہ پر گیارہ ستمبر کے حملوں کے بعد آسٹریلیا نے طالبان، القاعدہ اور دیگر اسلام پسند گروپوں کے خلاف امریکی اور اتحادی افواج کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے اپنے 26,000 سے زیادہ فوجی افغانستان بھیجے تھے۔