ترکیہ میں استنبول کے میئر اکرم امام اوغلو کی گرفتاری کے نتیجے میں ہونے والے ملک گیر مظاہروں میں شریک 1900 افراد کو حراست میں لے لیا۔
استنبول کے معزول میئر اکرم امام اوغلو کی گرفتاری کے بعد ایک دہائی میں سب سے بڑے حکومت مخالف مظاہرے ہوئے اور ملک بھر میں بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہوئیں۔
ترکیہ کے وزیر داخلہ علی یرلیکایا نے کہا کہ گزشتہ بدھ کو مظاہرے شروع ہونے کے بعد سے 18سو 79 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا احتجاجی مظاہروں میں 150 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔
وزیر انصاف یلماز تونج نے اپنے یورپی شراکت داروں سے ’ کامن سینس’ “ سے کام لینے کی درخواست کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ امام اوغلو کے خلاف الزامات کی سنگینی ان کی گرفتاری کی متقاضی تھی۔
یلماز تونج کا مزید کہنا تھا کہ ہم کسی بھی سیاستدان کی گرفتاری نہیں چاہتے، لیکن اگر خلاف ورزی کا ثبوت موجود ہے تو ایسا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم الزامات کی سنگینی کو دیکھیں تو اس لیے عدلیہ نے ایک معقول فیصلہ کیا ہے۔
وزیر انصاف نے مزید کہا کہ منتخب عہدیدار ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی سزا سے مبرا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ امام اوغلو کے خلاف مقدمے کی رازداری کی وجہ سے اردوان کو اس بارے میں مطلع نہیں کیا جا رہا ،
دوسری جانب اپوزیشن جماعت سی ایچ پی نے ترک باشندوں سے احتجاج جاری رکھنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ استنبول اور دیگر مقامات پر مختلف مقامات پر ریلیاں اور اجتماعات منعقد کرے گی۔
امام اوغلو کو گزشتہ اتوار کے روز بدعنوانی کے الزام میں زیر التوا مقدمہ میں جیل بھیج دیا گیا تھا۔